میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں

میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا
میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے
اک دن انجانے میں محبت کے ساتھ ملاقات جو ہوئی
سرد ہوا اور ساتھ میں ہلکی ہلکی برسات جو ہوئی
سچ پوچھو تو موسم بہت اچھا تھا
نہ بہکنے کا مگر میرا ارادہ پکا تھا
ادب سے میں نے جو پیش خدمت سلام کیا
نہایت مؤدبانہ محبت نے مجھ سے کلام کیا
پہلے پہل تو بہت ہی بھولی لگی مجھے
تتلیوں کے جھرمٹ کی ہمجولی لگی مجھے
پوچھا جو میں نے کیوں ستاتی ہو دیوانوں کو
وہ بولی ذیادہ نہیں بس سجاتی ہوں میخانوں کو
کہنے لگی لگتا ہے تمہاری مجھ سے وقفیت نہیں ہے
تبھی تو تمہارے دل میں میری قدریت نہیں ہے
میں نے کہا کہنے کو تو اچھی لگتی ہو تم
مگر ہلکی ہلکی دل میں کھٹکھتی ہو تم
ہنس کر کہنے لگی تم سے دوستی کرنی ہے مجھے
ذیادہ نہ سہی تھوڑی سی شوخی کرنی ہے مجھے
میں بھی مسکرا دیا یہ کہہ کر
مسکراؤں گا سب کچھ سہہ کر
بھوکلا کر کہنے لگی بہت ہی اکڑُو ہو تم
باریک بینی سے واقف اور نہایت پکڑُو ہو تم
میں ہنس دیا کہ تم مجھے سمجھ نہ پاؤ گی
سب کچھ کہہ کر بھی کچھ کہہ نہ پاؤ گی
کہنے لگی وقت آنے پر جتاؤں گی
کیا چیز ہوں میں تمہیں بتاؤں گی
میں نے کہا بنیاد بہت پکی ہے میری
دیکھوں گا کہاں تک چلتی ہے تیری
کہنے لگی کسی سہانی محفل میں تمہیں ملواؤں گی
چوری چوری چپکے چپکے تمہیں ہرسو ستاؤں گی
میں نے کہا دل ہے کوئی یتیم خانہ نہیں
یہاں مرے سوا کسی اور کا آنا جانا نہیں
کہنے لگی واہ کیا ناز ہے
بات کرنے کا کیا انداز ہے
مگر
اک دن میں آؤں گی
کسی کی خاطر تمہیں تڑپاؤں گی
میں نے کہا انظار رہے گا
صبح شام کئی بار رہے گا
کہنے لگی اب میں چلتی ہوں
زیست کے کسی موڑ پر ملتی ہوں
میں نے کہا کوئی اتاپتہ تو دیتی جاؤ
یوں باتوں سے نہ میرا دل بہلاؤ
کہنے لگی لکھو میں لکھواتی ہوں
پتہ اپنا آج تمہیں میں بتاتی ہوں
جہاں بھی حسن و شباہت کی ریل پیل ہو گی
وہیں بیچ و بیچ مرے تخت ہونے کی دلیل ہو گی۔۔۔۔
Posted by: Saleem Saqi
بہت جی چاہتا ہے چیخوں اور چلاؤں میں
مگر دماغ کہتا ہے حد میں رہ جاؤں میں
سوچتا ہوں کسی دن کہہ دوں اسے دل کی بات
پر زبان کہتی ہے چپ رہ جاؤں میں
بہت کوشش کی دل کی سنوں نہ دماغ کی
مگر خواہش ہے میری ہارتا رہ جاؤں میں
بس اسی باعث اکیلا ہوں خود ہی کو کوستا رہتا ہوں
یہی باقی رہا ٹسوے بہا بہا کر پونچھتا رہ جاؤں میں۔
ساتھ چھوڑ جانے سے
دل کو توڑ جانے سے
فرق ہی کیا پڑتا ہے
اتنا ہی تو ہوتا ہے
بس نہیں چلتا خود پہ
زندہ ہوتے ہیں مگر
زندگی نہیں رہتی
چاہتیں مر جاتی ہیں
بندگی نہیں رہتی
حوصلہ نہیں ہوتا
اک قدم بھی چلنے کا
بس مزہ ہی آتا ہے
چاہتوں میں جلنے کا
تم بھی چھوڑ جاوٴ تو
اتنا سوچ لینا بس
فرق ہی کیا پڑتا ہے
ایک ہی گیت لب پہ صبح و شام ہے
اور اس گیت میں بس ترا نام ہے
اس میں ذرہ برابر صداقت نہیں
بے وفائز کا مجھ پہ جو الزام ہے
اس کو تسلیم کرتا نہیں ہے جہاں
عشق جس نے کیا ہے وہ بدنام ہے
بول بالا ہے رشوت کا چاروں طرف
ہو رہا آج ہر کوئی نیلام ہے
اس کی گھٹنوں میں ہے عقل غضنی میاں
شاعروں کو سمجھتا جو ناکام ہے
کچھ ایسے کام اب کر جاؤں گا میں
دل کی راہوں سے اتر جاؤں گا میں
مری تعمیر میں صرف ہوئے ہیں ذرات
چھونا مت مجھے بکھر جاؤں گا میں
تنہائی کی ہوجائے گی اتنی عادت مجھے
اپنے ہی ساۓ سے ڈر جاؤں گا میں
مہرعلی