پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا
کل چودھویں کی رات تھی، شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرا تیرا
وعدہ کرنا بھی نہِیں تُجھ کو نِبھانا بھی نہِیں
سب ہے معلوم تُُجھے لوٹ کے آنا بھی نہِیں
رہنے دیتا ہی نہِیں تو جو درونِ دل اب
اور مِرا دِل کے سِوا کوئی ٹھِکانہ بھی نہِیں
کِتنے جُگنو تھے، مِرے دوست ہُوئے گرد آلود
اب مُجھے دِیپ محبّت کا جلانا بھی نہِیں
کب وہ ظاہر ہوگا اور حیران کر دے گا مجھے
جتنی بھی مشکل میں ہوں آسان کر دے گا مجھے
بدلے ہوئے حالات سے ڈر جاتا ہوں اکثر
شیرازۂ ملت ہوں، بکھر جاتا ہوں اکثر
میں ایسا سفینہ ہوں کہ ساحل کی صدا پر
طوفان کے سینے میں اتر جاتا ہوں اکثر
آنکھ رکھتے ہو تو اس آنکھ کی تحریر پڑھو
منہ سے اقرار نہ کرنا تو ہے عادت اس کی
تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتا نہیں
تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے