چڑھدے سورج ڈھلدے ویکھے

چڑھدے سورج ڈھلدے ویکھے
بجھے دیوے بلدے دیکھے
ہیرے دا کوِئی مول نہ تارے
کھوٹے سکے چلدے ویکھے
چڑھدے سورج ڈھلدے ویکھے
بجھے دیوے بلدے دیکھے
ہیرے دا کوِئی مول نہ تارے
کھوٹے سکے چلدے ویکھے
مجھے عاجزی میں وہ مزہ ملا
کے جو غرور تھا وہ نکل گیا
تیرے کرم کے ایسی ہوا چلی
كے میں گرتے گرتے سنبھل گیا
یہ سہانا موسم عاشقی اور تمہاری آنکھ کے سوال ؟
رووٹھو مت جاناں ، ہم ہر جواب جانتے ہیں
نظر نظر کا فرق ہوتا ہے حسن کا نہیں اقبال
محبوب جس کا بھی ہو جیسا بھی ہو بے مثال ہوتا ہے
آج تنہائی کسی ہمدم دیریں کی طرح
کرنے آئی ہے میری ساقی گیری شام ڈھلے
منتظر بیٹھے ہے ہَم دونوں كے مہتاب ابھرے
اور ترا عکس جھلکنے لگے ہر سائے تلے
طے ہو گیا ہے مسئلہ جب انتساب کا
اب یہ بھی کوئی کام ہے لکھنا کتاب کا
کھایا ہے سیر ہو کے خیالی پلاؤ آج
پانی پھر اس کے بعد پیا ہے سراب کا
میں نہ کہتا تھا مصور کہ وہ ہے شعلہ عذار
دیکھ تو صفحہ قرطاس پہ تصویر نہ کھینچ
تمھارے دکھ ہم سہہ نہیں سکتے
بھری محفل میں کچھ کہہ نہیں سکتے
ہمارے گرتے ہوئے آنسوں کو بار بار دیکھ کر
وہ بھی کہتے ہیں کہہ ہم آپ کے بن رہ نہیں سکتے