دولت درد کو دنیا سے چھپا کر رکھنا

دولت درد کو دنیا سے چھپا کر رکھنا
آنکھ میں بوند نہ ہو دِل میں سمندر رکھنا
دولت درد کو دنیا سے چھپا کر رکھنا
آنکھ میں بوند نہ ہو دِل میں سمندر رکھنا
بوندوں نے گر کے غضب سا ہے ڈالا
موسم میں موسم عجب سا ہے ڈالا
یہ بارش کا بادل بھی مجھ سا ہے رنج
جو چھلکا ذرا ، سب بَدَل سا ہے ڈالا
تیرا حُسْن ہو میرا عشق ہو
پھر حُسْن وعشق کی بات ہو
کبھی میں ملوں ، کبھی تو ملے
کبھی ہم ملیں ملاقات ہو
کون روتا ہے یہاں رات كے سناٹوں میں
میرے جیسا ہی کوئی عشق کا مارا ہو گا
کام مشکل ہے مگر جیت ہی لوں گا اُس کو
میرے مولا کا وصی جونہی اشارہ ہو گا
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
دل تو وہ برگِ خزاں ہے کہ ہوا لے جائے
غم وہ آندھی ہے کہ صحرا بھی اُڑا لے جائے
کون لایا تری محفل میں ہمیں ہوش نہیں
کوئی آئے تری محفل سے اُٹھا لے جائے
ہجوم دیکھ کے رستہ نہیں بدلتے ہم
کسی کے ڈر سے تقاضا نہیں بدلتے ہم
ہزار زیر قدم راستہ ہو خاروں کا
جو چل پڑیں تو ارادہ نہیں بدلتے ہم
تیری آغوش میں جنت اور جہاں دونوں کا سکون تھا
اِس پتھر پہ سَر رکھ كے مجھ سے سویا نہیں جاتا اے ماں