آئے تو یوں كے ہمیشہ تھے مہربان
آئے تو یوں كے ہمیشہ تھے مہربان
بھولے تو یوں كے گویا کبھی آشْنا نہ تھے
آئے تو یوں كے ہمیشہ تھے مہربان
بھولے تو یوں كے گویا کبھی آشْنا نہ تھے
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے كے جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
غضب کی دھوپ تھی تنہائیوں كے جنگل میں
شجر بہت تھے ، مگر کوئی سایہ دار نہ تھا
دِل ٹوٹ بھی جائے تو محبت نہیں مٹتی
اِس راہ میں لٹ کر بھی خسارہ نہیں ہوتا
کیوں روتے ہو اِس بے وفا دنیا میں راشد
آنسوؤں سے تقدیر بدلتی ہوتی تو آج میرا بھی کوئی اپنا ہوتا
لکھ كے نام میرا ہتھیلی پہ مٹا دیا ہو گا
پرانا قصہ ہوں آخر بھلا دیا ہو گا