وہ بیان کر گیا اک منظر الیگار سے
ہر پل کو تراشا اور ارض کیا اپنے یار سے
کیا پتہ یہ صلہ ملتا ہے دِل لگانے کا
پیار کی کشتی کو اتارا تھا بڑے پیار سے
زخم جو بنتا ہے وہ دیکھتا نہیں جسم ہے
اور آب چشم بھی رکتا نہیں ابصار سے
اکثر روشنی سے اک آس دکھتی ہے زندگی کی
چراغیں جلا ئے بیٹھا ہے اس انتظار سے
عرضمند ہے وہ صبر رکھتے ہے ناساز كے بَعْد
جیتے ہے وہ ہمیشہ اکژیت كے اشرار سے
قمر کی چاندنی راتوں میں وہ پل یاد آئے تو
دعا کرنا کہ شفاء ملے پرور دیگار سے