رواج تو یہی ہے دنیا کا مل جانا بچھڑ جانا
رواج تو یہی ہے دنیا کا مل جانا بچھڑ جانا
تم سے یہ کیسا رشتہ ہے نہ ملتے ہو نہ بچھڑتے ہو
رواج تو یہی ہے دنیا کا مل جانا بچھڑ جانا
تم سے یہ کیسا رشتہ ہے نہ ملتے ہو نہ بچھڑتے ہو
وہ اکثر دن میں بچوں کو سلا دیتی ہے اس ڈر سے
گلی میں پھر کھلونے بیچنے والا نہ آ جائے
بس اک خواہش ہے کے تجھے خود سے زیادہ چاہوں
میں رہوں نہ رہوں تجھے میری وفا یاد رہے
ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر
وصیؔ میں جب بھی ہنستا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تیری خاطر ہم اک شام چرانے نکلے
دَرد میں ڈھال كے خود کو آزمانے نکلے
پِھر انہی ترسی نظروں سے تماشا دیکھا
بات اتنی سے تھی کے سب زخم پُرانے نکلے
چمکتے لفظ ستاروں سے چھین لائے ہیں
ہم آسماں سے غزل کی زمین لائے ہیں
وہ اور ہوں گے جو خنجر چھپا کے لاتے ہیں
ہم اپنے ساتھ پھٹی آستین لائے ہیں
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
گواہی کیسے ٹوٹتی معاملہ خدا کا تھا
مرا اور اس کا رابطہ تو ہاتھ اور دعا کا تھا