میں حیراں ہوں کہ کیوں اس سے ہوئی تھی دوستی اپنی
میں حیراں ہوں کہ کیوں اس سے ہوئی تھی دوستی اپنی
مجھے کیسے گوارہ ہو گئی تھی دشمنی اپنی
میں حیراں ہوں کہ کیوں اس سے ہوئی تھی دوستی اپنی
مجھے کیسے گوارہ ہو گئی تھی دشمنی اپنی
ستم ہی کرنا جفا ہی کرنا نگاہ الفت کبھی نہ کرنا
تمہیں قسم ہے ہمارے سر کی ہمارے حق میں کمی نہ کرنا
پِھر یوں ہوا كے ساتھ تیرا چھوڑنا پڑا
ثابت ہوا كے لازم و ملزوم کچھ نہیں
تتلیاں جگنو سبھی ہوں گے مگر دیکھے گا کون
ہم سجا بھی لیں اگر دیوار و در دیکھے گا کون
اسے پانا اسے کھونا اسی كے ہجر میں رونا
یہی گر عشق ہے محسن تو ہَم تنہا ہی اچھے تھے
نیت شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا
ماضی تو سنہرا ہے مگر حال کھو گیا
وہ رعب و دبدبہ وہ جلال کھو گیا
وہ حسن بے مثال وہ جمال کھو گیا
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم