تیری خاطر ہم اک شام چرانے نکلے
دَرد میں ڈھال كے خود کو آزمانے نکلے
پِھر انہی ترسی نظروں سے تماشا دیکھا
بات اتنی سے تھی کے سب زخم پُرانے نکلے
غم کی آغوش میں خود کو سمیٹا ایسے
رات اتنی ہے تو پِھر ہَم سوگ منانے نکلے
وہ جو نظروں میں طلاطم تھا دیکھا سب نے
راز جو آنكھوں سے عیاں تھے وہ چھپانے نکلے
میری تقدیر میں تنہائی کے سوا کچھ بھی نہیں
تیرے آنے کے سبھی وعدے تو بہانے نکلے