غیر كے دِل میں گر اترنا تھا
غیر كے دِل میں گر اترنا تھا
میرے دِل سے اُتَر گئے ہوتے
کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا
ترا ذکر میری کتاب میں نہیں آئے گا
دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں
بیت گیا ساون کا مہینہ، موسم نے نظریں بدلیں
لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں
ہستی ہی اپنی کیا ہے زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا
اٹھ کر تو آ گئے ہیں تیری بزم سے مگر
کچھ دِل ہی جانتا ہے کہ کس دِل سے آئے ہیں
ہمارے بعد نہیں آئے گا اسے چاہت کا ایسا مزہ
وہ اوروں سے خود کہتا پھرے گا مجھے چاہو اس کی طرح
اس نے یہ سوچ کر ہمیں الوداع کہہ دیا محسن
یہ غریب لوگ ہیں محبت كے سوا کیا دیں گے