کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا
تلاش مجھ کو نہ کر دشتِ رہبر میں غالب
نگاہ دل سے دیکھ تیرے کتنا قریب ہوں میں
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اک بار تو ملنے آؤ کہ دسمبر آنے والا ہے
کیسا گزرا یہ سال بتانے آؤ دسمبر آنے والا ہے
خوش ہو جاؤ کہ ملنے کا سال آ رہا ہے پھر
وصی یوں نہ آنسو بہاؤ دسمبر آنے والا ہے
اٹھ کر تو آ گئے ہیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
جسے خود سے نہیں فرصتیں ، نہ جسے خیال اپنے جمال کا
اسے کیا خبر میرے شوق کی اسے کیا پتہ میرے حال کا
مقصد زیست غم عشق ہے صحرا ہو کہ شہر
بیٹھ جائیں گے جہاں چاہو بٹھا دو ہم کو
اگر کبھی نیند آ جائے تو سو بھی لیا کر ساغر
راتوں کو جاگتے رہنے سے بچھڑے لوٹا نہیں کرتے