اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی صورت
اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی صورت
ہوتا ہے شوق غالب اس کی نہیں نہیں پر
اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی صورت
ہوتا ہے شوق غالب اس کی نہیں نہیں پر
آئینہ دیکھ ذرا کیا میں غلط کہتا ہوں
تو نے خود سے بھی کوئی بات چھپا رکھی ہے
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں
میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار
بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا نہیں پیارے بہ اجازت لکھنا
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
یہ تیرے خط تیری خوشبو یہ تیرے خواب و خیال
متاع جان ہیں تیرے قول و قسم کی طرح
گذشتہ سال انہیں میں نے گن كے رکھا تھا
کسی غریب کی جوڑی ہوئی رقم کی طرح