دیوانوں کو پِھر سے ہے امید وفا کی
دیوانوں کو پِھر سے ہے امید وفا کی
دیوانوں نے پِھر ریت پر تحریر لکھی ہے
دیوانوں کو پِھر سے ہے امید وفا کی
دیوانوں نے پِھر ریت پر تحریر لکھی ہے
جاتی ہے دھوپ اجلے پروں کو سمیٹ کے
زخموں کو اب گنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے
میں مدتوں جیا ہوں کسی دوست کے بغیر
اب تم بھی ساتھ چھوڑنے کو کہہ رہے ہو خیر
خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہے اے اکبرؔ
یہی وہ در ہے کہ ذلت نہیں سوال کے بعد
کوئی اے شکیلؔ پوچھے یہ جنوں نہیں تو کیا ہے
کہ اسی کے ہو گئے ہم جو نہ ہو سکا ہمارا
ہزار درد كے رنگوں سے آشْنا تھی نظر
پِھر اک خواب سیاہ کھا گیا میری آنکھیں
بے نام سے اک خوف سے دل کیوں ہے پریشاں
جب طے ہے کہ کچھ وقت سے پہلے نہیں ہوگا
وہ جی گیت تم نے سنا نہیں
میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی داستاں
جسے تم ہنسی میں اڑا گئے