گفتگو دیر سے جاری ہے نتیجے کے بغیر
گفتگو دیر سے جاری ہے نتیجے کے بغیر
اک نئی بات نکل آتی ہے ہر بات کے ساتھ
گفتگو دیر سے جاری ہے نتیجے کے بغیر
اک نئی بات نکل آتی ہے ہر بات کے ساتھ
کیسے آ سکتی ہے ایسی دل نشیں دنیا کو موت
کون کہتا ہے کہ یہ سب کچھ فنا ہو جائے گا
دِل لگی ہے اور ، عشق ہے مشقت اور
بوجھ ہے کسی پہ ، کسی کی ہے ثروت اور
اپنے ہوئے بیگانے کہیں پہ
کہیں ہے دشمنوں کی عنایت اور
آج پھر بجھ گئے جل جل کے امیدوں کے چراغ
آج پھر تاروں بھری رات نے دم توڑ دیا
عامر کسی کو زلفیں ، کسی کو پسند آنکھیں
ہے جو زیرِ لب تل ، ہے وہ جان کسی کی
عامر دکھ دیئے تم نے تو کیا ، سب نے دیئے
تیری سوغات یہ دولت میری ، میرا یہ خیال ہے
وہ مجھ سے اپنا پتا پوچھنے کو آ نکلے
کہ جن سے میں نے خود اپنا سراغ پایا تھا