ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دم نہیں
ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں
ختم ہونے کو ہیں اشکوں کے ذخیرے بھی جمالؔ
روئے کب تک کوئی اس شہر کی ویرانی پر
رہتا ہے عبادت میں ہمیں موت کا کھٹکا
ہم یاد خدا کرتے ہیں کر لے نہ خدا یاد
اِس طرح ستانے کی ضرورت کیا تھی
کمینی دِل کو جلانے کی ضرورت کیا تھی
جو نہیں تھا عشق تو بھونک دیتی
اپنی اوقات دکھانے کی ضرورت کیا تھی
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
میری سمجھ میں نہیں آتا
كے میں سمجھ کیوں نہیں پاتا
وہ میرا جو اک خواب تھا
كہ حقیقت میں نہیں آتا