شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے
شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے
ایسا نہیں کہ ہم کو محبت نہیں مِلی
ہم جیسی چاہتے تھے وہ قُربت نہیں مِلی
ملنے کو زندگی میں کئی ہمسفر ملے
لیکن طبیعتوں سے طبیعت نہیں ملی
مزید پڑھیں […]
میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے
غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے بھی آؤ کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی
کہو اجل سے ذرا دو گھڑی ٹھہر جائے
سنا ہے آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی
ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
بہانے اور بھی ہوتے جو زندگی کے لیے
ہم ایک بار تری آرزو بھی کھو دیتے