آنکھوں میں ہے عجب سرور تیری
آنکھوں میں ہے عجب سرور تیری
ہے قیامت تیرے چہرے کی کشش
آج تک اپنی جگہ دل میں نہیں اپنے ہوئی
یار کے دل میں بھلا پوچھو تو گھر کیوں کر کریں
بڑا سمجھدار تھا لیکن اُس کے ذہن میں کوئی بات اٹکی تھی
اُس کے لہجے سے ظاہر تھا کہ اُسے کوئی بات کھٹکی تھی
بڑا اہم تھا یہی میرا وہم تھا
اُس نے میری آنکھوں پر باند رکھی جو پٹی تھی
اُس نے صاف کہا میری تو منزل کچھ اور تھی
میری تو بس آنکھیں بھٹکی تھیں
اُس نے فقط مُجھے دیکھا تھا میری ذات کو کب سمجھ سکی تھی
سوچ میں تصادم تھا عثمان
ورنہ میں عُمر کا کچا تھا میری مُحبت تو پکی تھی۔
درد کی دِل پہ حکومت تھی کہاں تھا اس وقت
جب مجھے تیری ضرورت تھی کہاں تھا اس وقت
موت كے سکھ میں چلا آیا مجھے دیکھنے کو
زندہ رہنے کی مصیبت تھی کہاں تھا اس وقت
دِل كے دریائوں میں اب ریت ہے سحراؤں کی
جب مجھے تم سے محبت تھی کہاں تھا اس وقت
جس کو طوفان سے الجھنے کی عادت ہو محسن
ایسی کشتی کو سمندر بھی دعا دیتا ہے
تیری طرح تیرا غم بھی ہمیں مات دے گیا
آنکھیں تو ڈھانپ لیں مگر آنسو نہ چُھپ سکے
تیرا غم کسی کی جان پر بن گیا ہے
تیرا ظلم بتاتا ہے کہ توں جلاد بن گیا ہے
مزید پڑھیں […]