مجھ میں اور شمع میں ہوتی تھی یہ باتیں شب ہجر
مجھ میں اور شمع میں ہوتی تھی یہ باتیں شب ہجر
آج کی رات بچیں گے تو سحر دیکھیں گے
مجھ میں اور شمع میں ہوتی تھی یہ باتیں شب ہجر
آج کی رات بچیں گے تو سحر دیکھیں گے
آج تک اپنی جگہ دل میں نہیں اپنے ہوئی
یار کے دل میں بھلا پوچھو تو گھر کیوں کر کریں
کھلونوں کی دکانوں کی طرف سے آپ کیوں گزرے
یہ بچے کی تمنا ہے یہ سمجھوتا نہیں کرتی
تمہیں بھی نیند سی آنے لگی ہے تھک گئے ہم بھی
چلو ہم آج یہ قصہ ادھورا چھوڑ دیتے ہیں
طلب دنیا کو کر کے زن مریدی ہو نہیں سکتی
خیال آبروئے ہمت مردانہ آتا ہے
گر کبھی رونا ہی پڑ جائے تو اتنا رونا
آ کے برسات ترے سامنے توبہ کر لے