شام بھی ہو جائے گی یہ، دِل نشِیں آئے گا وہ

شام بھی ہو جائے گی یہ، دِل نشِیں آئے گا وہ
آرزُوئیں ہو رہی ہیں جاگزِیں آئے گا وہ
پہلے بھی وعدوں سے اپنے کب کِیا ہے اِنحراف
اب وچن جو دے دیا تو بِالیقیں آئے گا وہ
شام بھی ہو جائے گی یہ، دِل نشِیں آئے گا وہ
آرزُوئیں ہو رہی ہیں جاگزِیں آئے گا وہ
پہلے بھی وعدوں سے اپنے کب کِیا ہے اِنحراف
اب وچن جو دے دیا تو بِالیقیں آئے گا وہ
اگرچہ دُشوار تھا مگر زیر کر لِیا تھا
انا کا رستہ سہل سمجھ کر جو سر لِیا تھا
وُہ کہکشاؤں کی حد سے آگے کہیں بسا ھے
طلب میں جِس کی زمِیں پہ بوسِیدہ گھر لِیا تھا
گُلوں کی چاہت میں ایک دِن کیا بِچھایا ھوگا
کہ ھم نے کانٹوں سے اپنا دامان بھر لِیا تھا
بڑھایا اُس نے جو گرم جوشی سے ھاتھ یارو مزید پڑھیں […]
سُنا ہے اُسکی چوکھٹ پر، جلے چراغ ملتے ہیں
ابھی بھی منتظر ہے وہ، یہی سُراغ ملتے ہیں
فاصلے ہوں یا فیصلے ہوں، اُنہیں جُدا نہیں کرتے
جنکے مخلص محبت میں، دِل و دماغ ملتے ہیں
باہر وبا کا خوف ہے، گھر میں بلا کی بھوک
کس موت سے مروں میں ذرا راۓ دیجیۓ
اک لہر ہے کہ مجھ میں اچھلنے کو ہے ظفرؔ
اک لفظ ہے کہ مجھ سے ادا ہونے والا ہے
لکھاری کو اسکے لکھے کی گر داد نہیں ملتی
تو اسکو اور لکھنے کو کوئ بات نہیں ملتی
ڈان پاجی
اب تک نہیں سمجھ سکے ہیں تم ہم سے کیوں روٹھ بیٹھے ہو
چھپائے دل میں غموں کا جہاں تم بیٹھے ہو
کھوئے اپنے دل کا سکوں ہم بیٹھے ہیں
نہ جانے ہم کہاں گم بیٹھے ہیں
غلط ٹھہرا ہر کوئی مری پہچان میں
الگ تصویرتھی مری مرے گمان میں
بگاڑ کرانسان اس زمین کےخدوخال
تلاش کرتا ہے نیا گھر آسمان میں
دراصل اپنا ہی عکس دیکھتا ہے ہر کوئی
لگے ہیں ہر طرف آئینے جہان میں
مہرعلی