سُنا ہے اُسکی چوکھٹ پر، جلے چراغ ملتے ہیں

Suna-Hai-Uski-Chokath-Pr

سُنا ہے اُسکی چوکھٹ پر، جلے چراغ ملتے ہیں
ابھی بھی منتظر ہے وہ، یہی سُراغ ملتے ہیں

فاصلے ہوں یا فیصلے ہوں، اُنہیں جُدا نہیں کرتے
جنکے مخلص محبت میں، دِل و دماغ ملتے ہیں

محبت کا اور رنجش کا، جہاں آغاز ثابت ہے
وہیں پر بات کرتے ہیں، چلو اُس باغ ملتے ہیں

لگ کے دامن پہ دِکھلائیں، حقیقی عکس رشتوں کا
بہت مانوس ہاتھوں سے ، ہمیں جو داغ ملتے ہیں

ہے حاوی مجھ پہ لازم یہ، میں اب عقاب ہو جاﺅں
کہ مجھ سے جو بھی ملتے ہیں، چشمِ زاغ ملتے ہیں

(طارق اقبال حاوی)

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
تمام تبصرے دیکھیں