حسن و دولت ہیں عارضی آخر

حسن و دولت ہیں عارضی آخر
خاک ہونی ہے دلکشی آخر
نام، منصب، عروج، شہرت بھی
سب یہ ہوتے ہیں موسمی آخر
کیوں رنجیدہ ہو انکے جانے پر
پنچھی ہوتے ہیں ہجرتی آخر
ایک جگنو میرا ہم نفس بنا
چھٹ گئی ساری تیرگی آخر
مزید پڑھیں […]
حسن و دولت ہیں عارضی آخر
خاک ہونی ہے دلکشی آخر
نام، منصب، عروج، شہرت بھی
سب یہ ہوتے ہیں موسمی آخر
کیوں رنجیدہ ہو انکے جانے پر
پنچھی ہوتے ہیں ہجرتی آخر
ایک جگنو میرا ہم نفس بنا
چھٹ گئی ساری تیرگی آخر
مزید پڑھیں […]
اٹھائے ہیں کیا کیا ستم رات بھر میں
دیے جل رہے ہیں امیدِ سحر میں
بہت سے کٹھن راستے ہیں مگر تم
چراغوں کو بجھنے نہ دینا نگر میں
بتاتی ہے بے چین پلکوں کی الجھن
دریچے کھلے ہی رہے رات بھر میں
آیا ہے تو رک بھی جا، جانِ جگر بات کر
آ اب سخن آزما، اب رات بھر بات کر
اک رات کی بات ہے، برسات کی رات ہے
دیکھوں تری رہ گزر، تو ہے کدھر بات کر
تو کیوں ہے مجھ سے خفا، یہ راہ ہے کیوں جدا
تیرے لیے ہی ہوا، میں در بدر بات کر
ہمیں بے فہم جہاں والے شاہ کہتے ہیں
ہمارے پاس ہے کیا خوامخواہ کہتے ہیں
ذرا سے لوگ تو عالم پناہ کہتے ہیں
کبھی کبھی نہیں کہتے وگرنہ کہتے ہیں
بڑے عجب ہیں مرے شہر کے سخن پرور
مری ہر ایک حماقت پہ واہ کہتے ہیں
مُجھے ایسے تُمہیں نا آزمانا چاہِیے تھا
بتا کر ہی تُمہارے شہر آنا چاہِیے تھا
مِرے ہر ہر قدم پر شک کی نظریں ہیں تُمہاری
تُمہیں تو رُوٹھنے کا بس بہانا چاہِیے تھا
مِرے بچّے گئے ہیں کل سے پِکنِک کا بتا کر
نہِیں آئے ابھی تک، اُن کو آنا چاہِیے تھا
غرض پرستی میں حد سے گزر نہیں جانا
مجھے بگاڑ كے تم خود سنور نہیں جانا
او شوق و ناز سے زلفیں سنوارنے والے
میری حیات کی مانند بکھر نہیں جانا
بہت سے لوگ میری زندگی میں آئے ، گئے
میری نگاہ سے تم بھی اُتَر نہیں جانا
کوئی اہلِ نظر نہیں لگتا
اس لیے معتبر نہیں لگتا
سب دئیے ہم نے خود بجھا ڈالے
اب ہواؤں سے ڈر نہیں لگتا
جو شہرِ دل میں یہ فِتنہ فساد باقی ہے
یُوں لگ رہا ہے تری کوئی یاد باقی ہے
میں شاعروں میں سراہا گیا ہوں خوب مگر
تری طرف سے جو ملنی ہے داد باقی ہے