غرض پرستی میں حد سے گزر نہیں جانا
مجھے بگاڑ كے تم خود سنور نہیں جانا
او شوق و ناز سے زلفیں سنوارنے والے
میری حیات کی مانند بکھر نہیں جانا
بہت سے لوگ میری زندگی میں آئے ، گئے
میری نگاہ سے تم بھی اُتَر نہیں جانا
منافقوں میں رہیں گے تو کیسے گزرے گی
یہ جاننا تھا ضروری مگر نہیں جانا
ہزاروں قافلے منزل سے ہو گئے محروم
قصور اپنا مگر راہبر نہیں جانا
ہم اہل حق، باطل کو کبھی حق نہیں سمجھے
اندھیری رات کو ہم نے سحر نہیں جانا
رفاقت اور مسافت میں جوڑ باقی رہے
اکیلا چھوڑ كے مجھ کو گزر نہیں جانا
بصیرت اور بصارت میں فرق کون کرے
قمر تھے ہم پہ کسی نے قمر نہیں جانا
الہی ! قوم کی کشتی تیرے حوالے ہے
كہ ناخدا نے بھنور کو بھنور نہیں جانا
وسیم کی طرح اِس ریختا نے جان سفر
تمہارے ساتھ سفر کو سفر نہیں جانا