آیا ہے تو رک بھی جا، جانِ جگر بات کر
آ اب سخن آزما، اب رات بھر بات کر
اک رات کی بات ہے، برسات کی رات ہے
دیکھوں تری رہ گزر، تو ہے کدھر بات کر
تو کیوں ہے مجھ سے خفا، یہ راہ ہے کیوں جدا
تیرے لیے ہی ہوا، میں در بدر بات کر
میں ہوں ترا رازداں، تو ہے مرا آئینہ
پھر کیوں ہے یہ تلخیاں، ایسا نہ کر بات کر
ڈھونڈے تجھے یہ نظر، باتیں تری خوب تر
جو آج پھر ہو اثر، اے با اثر بات کر
ارسلان احمد عاکف