بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے

بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
منزل نہیں ہوں خضر نہیں راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
منزل نہیں ہوں خضر نہیں راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے
مل گیا سب کچھ جہاں میں تمہیں پانے کے بعد
کیا، کچھ اور باقی ہے سوچتا ہوں تمہیں پانے کے بعد
یہ کس نیکی کا صلہ ہے، رب کی عطا ہے مجھ پر
کہ لکھ دیا میری قسمت میں تمہیں بنانے کے بعد
میں روٹھتا ہوں بڑے پیار سے منا لیتی ہوتم مجھے
میں ڈرتا ہوں کون منائے گا اس طرح تیرے جانے کے بعد
رہے میری زندگی میں تیرا ساتھ آخری سانس تک
بس اک یہ ہی دعا ہے میری تمہیں پانے کے بعد
تو چاہتا ہے میں تیرا وفا دار بنوں
میں کیونکر عشق کر کے تیرا عزادار بنوں
کیا میں بھی اپنے دل کو داؤ پر لگا دوں
کیا میں بھی انجمن عشق کا رضا کار بنوں
اے کاش کبھی وہ وقت آئے
میں دور کہیں کھو جاؤں
وہ ڈھونڈے مجھ کو نگر نگر
میں پھر نہ کبھی اسے مل پاؤں
معاشرے کی بندشوں نے ہمیں ناکارہ کر دیا
تمہیں کسی اور کا اور ہمیں تمہارا کردیا
تو خود تو ہو گئی پاکیزگی کا پیکر
لوگوں کے سامنا ہمیں آوارہ کر دیا
اب کچھ نہیں بچا اس حقیر کی جھولی میں
دل ہی تھا وہ بھی تیرے نام سارا کا سارا کر دیا
تیری بے وفائی کی میں کیا داد دوں کہ
مجھے بھی ساتھ رکھا اور اسے بھی اشارہ کر دیا
اس نے محبت کی یہ کہانی بنا کر انس
عاشق اور عشق دونوں کو بے سہارا کر دیا
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
اُسکا چہرہ بھی ہے اُسی کی طرح مغرور
کوئی دیکھے تو کیسے وہ رہتا ہے سب سے دور
لگتا ہے ھو بہ ھو اُسی تجلی جیسا
جس سے جل گیا ہو گا کوہِ طور
مُلّا نے پڑھی نمازیں اور کیا چہرہ روشن
روشن اُس جیسا جو چھلکتا ہے اُسکی پیشانی سے نور
مسجد میں نہ ملے تو ساقی کی نظر سے شیخ
دیکھنا اُسکی انکھوں میں خدا ملے گا ضرور
وہ چہرہ تھا رو بہ رو میرے، چھوا نہ اُسے
اسے شرافت کہو یا کہہ دو بندہ تھا مجبور
کیوں پوچھتا ہے مجھ سے یہ ان گنت سوال
جب بھی آتا ہے میرے دِل میں یوں تیرا خیال
کیوں کر گیا منتظر ، کیا جینا میرا مُحال
جب بھی آتا ہے میرے دِل میں یوں تیرا خیال