تو چاہتا ہے میں تیرا وفا دار بنوں
میں کیونکر عشق کر کے تیرا عزادار بنوں
کیا میں بھی اپنے دل کو داؤ پر لگا دوں
کیا میں بھی انجمن عشق کا رضا کار بنوں
تیرا عشق بھی دنیا کی طرح فانی ہے
میں کیونکر حسین کو چھوڑ کر تیرا عزادار بنوں
میں مانتا ہوں تیرا حُسن حوروں سے کم نہیں ہے
مگر میں نہیں چاہتا کہ غالب کی طرح بے کار بنوں
تمھاری قسم جاناں میں دل کا سخت نہیں ہوں
مگر میں نہیں چاہتا کہ تیری طرح ریا کار بنوں
تجھے فقط مجھ سے ہی نہیں میرے یاروں سے بھی گلہ ہے
میں کیونکر اپنے یاروں کو چھوڑ کر بے یار و مددگار بنوں
برا سمجھے میر تجھے یہ ہو نہیں سکتا
مگر تجھے چاہ کر میں کیونکر گنہ گار بنوں
مصحف علی میر۔