سوال یہ ہے جو چیز جیسے دکھتی ہے

سوال یہ ہے جو چیز جیسے دکھتی ہے
اسے ویسے ہی پیش کیوں نہ کیا جائے
اپنے اندر دبی آوازوں کو
باہر کیوں نہ لایا جائے
راہ سے بھٹک گئے ہیں انسان مزید پڑھیں […]
سوال یہ ہے جو چیز جیسے دکھتی ہے
اسے ویسے ہی پیش کیوں نہ کیا جائے
اپنے اندر دبی آوازوں کو
باہر کیوں نہ لایا جائے
راہ سے بھٹک گئے ہیں انسان مزید پڑھیں […]
مجھ میں ہیں خامیاں یہ بتا رہے ہیں
اندھے مجھے آئینہ دکھا رہے ہیں
ظلم ہے کہ کھیل کود کی عمر میں
بچے بستوں کا بوجھ اٹھا رہے ہیں
اس میں ہے کشش ثقل زمیں جیسی مزید پڑھیں […]
بہت جی چاہتا ہے چیخوں اور چلاؤں میں
مگر دماغ کہتا ہے حد میں رہ جاؤں میں
سوچتا ہوں کسی دن کہہ دوں اسے دل کی بات
پر زبان کہتی ہے چپ رہ جاؤں میں
بہت کوشش کی دل کی سنوں نہ دماغ کی
مگر خواہش ہے میری ہارتا رہ جاؤں میں
بس اسی باعث اکیلا ہوں خود ہی کو کوستا رہتا ہوں
یہی باقی رہا ٹسوے بہا بہا کر پونچھتا رہ جاؤں میں۔
ایک ہی گیت لب پہ صبح و شام ہے
اور اس گیت میں بس ترا نام ہے
اس میں ذرہ برابر صداقت نہیں
بے وفائز کا مجھ پہ جو الزام ہے
اس کو تسلیم کرتا نہیں ہے جہاں
عشق جس نے کیا ہے وہ بدنام ہے
بول بالا ہے رشوت کا چاروں طرف
ہو رہا آج ہر کوئی نیلام ہے
اس کی گھٹنوں میں ہے عقل غضنی میاں
شاعروں کو سمجھتا جو ناکام ہے
محبت میں دَغا دوں گا، کبھی تم سوچنا مت یہ
تمھیں اِک دِن بُھلا دوں گا، کبھی تم سوچنا مت یہ
میری جتنی محبت ہے، سبھی تیری امانت ہے
میں چاہت یہ گھٹا دوں گا، کبھی تم سوچنا مت یہ
محبت سے تمھیں مِل کے، کسی مورت کو میں دِل کے
مندر میں سجا دوں گا، کبھی تم سوچنا مت یہ
نہیں یہ وقت گزاری ہے، عمر یہ وقف ساری ہے
تیری قدریں گِرا دوں گا، کبھی تم سوچنا مت یہ
تیرے صدقے اُتاروں گا، دِل و جاں تجھ پہ واروں گا
کوئی آنے بَلا دوں گا، کبھی تم سوچنا مت یہ
شاعر: طارق اقبال حاوی
سچ کو پھیلا کر جھوٹ کو مٹاتا رہوں گا
حق کے لیے لڑ کر باطل کو ہراتا رہوں گا
برائی سے بچو گا خود دوسروں کو بھی بچاؤں گا
نیک کام کروں گا اچھائی پھیلاتا رہوں گا
مجھ سے نفرت کرکے تم میرا کچھ نہیں بیگاڑ سکتے
تلخ باتیں سہہ جاؤں گا مسکراتا رہوں گا
اگر کوئی میری عزت کو للکارے گا
صبر کا دامن تھام کر اللہ کو پکارتا رہوں گا
دوستوں سے محبت کروں گا جب تک دوست رہیں
منافقوں سے جان اپنی چھڑواتا رہوں گا
ظالم پہ قہر بنوں گا ظلم کیخلاف لڑوں گا میں
یہ بھول ہے تمہاری کہ میں ظلم سہتا رہوں گا
حق اللہ ہے حق اونچا ہے آخر حق کی جیت ہے عاطف
باطل کفر ہے کفر گمراہ ہے کفر کو آگ لگاتا رہوں گا
روز تاروں کو نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے
ایک دیوانہ مسافر ہے مری آنکھوں میں
وقت بے وقت ٹھہر جاتا ہے چل پڑتا ہے
رستے کا انتخاب ضروری سا ہو گیا
اب اختتام باب ضروری سا ہو گیا
ہم چپ رہے تو اور بھی الزام آئے گا
اب کچھ نہ کچھ جواب ضروری سا ہو گیا