بہت جی چاہتا ہے چیخوں اور چلاؤں میں

urdu ghazal

بہت جی چاہتا ہے چیخوں اور چلاؤں میں
مگر دماغ کہتا ہے حد میں رہ جاؤں میں

سوچتا ہوں کسی دن کہہ دوں اسے دل کی بات
پر زبان کہتی ہے چپ رہ جاؤں میں

بہت کوشش کی دل کی سنوں نہ دماغ کی
مگر خواہش ہے میری ہارتا رہ جاؤں میں

بس اسی باعث اکیلا ہوں خود ہی کو کوستا رہتا ہوں
یہی باقی رہا ٹسوے بہا بہا کر پونچھتا رہ جاؤں میں۔

ایک ہی گیت لب پہ صبح و شام ہے

urdu poetry

ایک ہی گیت لب پہ صبح و شام ہے
اور اس گیت میں بس ترا نام ہے
اس میں ذرہ برابر صداقت نہیں
بے وفائز کا مجھ پہ جو الزام ہے
اس کو تسلیم کرتا نہیں ہے جہاں
عشق جس نے کیا ہے وہ بدنام ہے
بول بالا ہے رشوت کا چاروں طرف
ہو رہا آج ہر کوئی نیلام ہے
اس کی گھٹنوں میں ہے عقل غضنی میاں
شاعروں کو سمجھتا جو ناکام ہے

محبت میں دَغا دوں گا، کبھی تم سوچنا مت یہ

محبت میں دَغا دوں گا، کبھی تم سوچنا مت یہ
تمھیں اِک دِن بُھلا دوں گا، کبھی تم سوچنا مت یہ

میری جتنی محبت ہے، سبھی تیری امانت ہے
میں چاہت یہ گھٹا دوں گا، کبھی تم سوچنا مت یہ

محبت سے تمھیں مِل کے، کسی مورت کو میں دِل کے
مندر میں سجا دوں گا، کبھی تم سوچنا مت یہ

نہیں یہ وقت گزاری ہے، عمر یہ وقف ساری ہے
تیری قدریں گِرا دوں گا، کبھی تم سوچنا مت یہ

تیرے صدقے اُتاروں گا، دِل و جاں تجھ پہ واروں گا
کوئی آنے بَلا دوں گا، کبھی تم سوچنا مت یہ

شاعر: طارق اقبال حاوی

سچ کو پھیلا کر جھوٹ کو مٹاتا رہوں گا

سچ کو پھیلا کر جھوٹ کو مٹاتا رہوں گا
حق کے لیے لڑ کر باطل کو ہراتا رہوں گا

برائی سے بچو گا خود دوسروں کو بھی بچاؤں گا
نیک کام کروں گا اچھائی پھیلاتا رہوں گا

مجھ سے نفرت کرکے تم میرا کچھ نہیں بیگاڑ سکتے
تلخ باتیں سہہ جاؤں گا مسکراتا رہوں گا

اگر کوئی میری عزت کو للکارے گا
صبر کا دامن تھام کر اللہ کو پکارتا رہوں گا

دوستوں سے محبت کروں گا جب تک دوست رہیں
منافقوں سے جان اپنی چھڑواتا رہوں گا

ظالم پہ قہر بنوں گا ظلم کیخلاف لڑوں گا میں
یہ بھول ہے تمہاری کہ میں ظلم سہتا رہوں گا

حق اللہ ہے حق اونچا ہے آخر حق کی جیت ہے عاطف
باطل کفر ہے کفر  گمراہ ہے کفر کو آگ لگاتا رہوں گا