لکھ كے نام میرا ہتھیلی پہ مٹا دیا ہو گا
لکھ كے نام میرا ہتھیلی پہ مٹا دیا ہو گا
پرانا قصہ ہوں آخر بھلا دیا ہو گا
لکھ كے نام میرا ہتھیلی پہ مٹا دیا ہو گا
پرانا قصہ ہوں آخر بھلا دیا ہو گا
بس مٹی کا لباس اوڑھنے کی دیر ہے ہمیں اے دوست
پِھر ہر شخص ڈھونڈے گا آنكھوں میں نمی لے کر
توڑ گیا وہ ہَم سے ہر تعلق فقط اتنا کہہ کر دوست
کہہ اجڑے ہوئے لوگوں میں ہَم بسا نہیں کرتے
ندامت کے دَرو بام پہ ہوئے کفر كے حساب
وجدان میں طلوع ہوا صبح کا آفتاب
امکان ہے کے زندان سے ہو جائیں گے رہا
تسخیر کر لیا ہے نفرت کا وہ سیلاب
روندتا ہے کیوں دلوں کو وقت کا سفاک پیر
ٹوٹتا ہے کیسے انسان کا بھرم لکھنا اسے
عمر بھر ہَم یوں ہی غلطی کرتے رہے غالب
دھول چہرے پر تھی اور ہم آئینہ صاف کرتے رہے
یہ عہد عجب عہد کمو بیش ہے جاناں
خود تیری گواہی ترے ہم راز نہ دیں گے
تو بھی ہمیں بن دیکھے گزر جائے گا اک دن
کچھ سوچ كے ہم بھی تجھے آواز نہ دیں گے
میں کسی کو کیا الزام دوں اپنی موت کا حاصل
یہاں تو ستانے والے بھی اپنے تھے دفنانے والے بھی اپنے