جس آنکھ نے دیکھا تجھے اس آنکھ کو دیکھوں

جس آنکھ نے دیکھا تجھے اس آنکھ کو دیکھوں
ہے اس کے سوا کیا ترے دیدار کی صورت
جس آنکھ نے دیکھا تجھے اس آنکھ کو دیکھوں
ہے اس کے سوا کیا ترے دیدار کی صورت
برسوں گزر گئے رو کر نہیں دیکھا
آنكھوں میں نیند تھی سو کر نہیں دیکھا
وہ کیا جانے درد محبت کا
جس نے کسی کا ہو کر نہیں دیکھا
رگوں میں دوڑتے پھرنے كے ہَم نہیں قائل
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پِھر لہو کیا ہے
وہ خوشی تھا امید تھا اک احساس تھا
بعد میں یہ گمان ہوا بس پل دو پل کا ساتھ تھا
رہتا ہے آج بھی انتظار اِس آنکھ کو کسی اپنے کا
وہ جا کر آج بھی ساتھ ہے جو کبھی ہمارے پاس تھا
آنكھوں میں انتظار كے لمحات سونپ کر
نیندیں بھی لے گیا وہ اپنے سفر كے ساتھ
آنکھ کمبخت سے اس بزم میں آنسو نہ رکا
ایک قطرے نے ڈبویا مجھے دریا ہو کر
آنکھوں میں رہا، دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا