یا رب میری ماں کو لازوال رکھنا
یا رب میری ماں کو لازوال رکھنا
میں رہوں نہ رہوں میری ماں کا خیال رکھنا
میری خوشیاں بھی لے لو میری سانسیں بھی لے لو
مگر میری ماں کے گرد سدا خوشیوں کا جال رکھنا
یا رب میری ماں کو لازوال رکھنا
میں رہوں نہ رہوں میری ماں کا خیال رکھنا
میری خوشیاں بھی لے لو میری سانسیں بھی لے لو
مگر میری ماں کے گرد سدا خوشیوں کا جال رکھنا
آنکھ اشکبار سہی، دل یہ گنہگار سہی
بندہ تو تیرا ہوں، بندہ یہ خطاکار سہی
ہزاروں کی بھیڑ میں تنہا ہیں
ایک تیری ملاقات کے طلبگار ہیں
سمجھے نہ تو زمانے کے جیسا مطلبی
اسی لیے تھوڑا محتاط ہیں
عشق میں تیرے ڈوب گئے اتنا
کہ خود سے بھی بیزار ہیں
کسی کا بولنا بھی نہیں لگتا اچھا
اک تیری آواز کے طلبگار ہیں
شفق
ابھی جوانی باقی ہے ابھی زندگانی باقی ہے
آجا اے صنم کہ ابھی کہانی باقی ہے
مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے
ڈھیندا جو کچھ ڈھا دے
اک بندے دا دِل ناں ڈھاویں
رب دلاں وچ رھیندا
مجھ پہ نظریں جمائے
کچھ سوچتے ہوئے
اپنے ناخنوں کو
دانتوں سے کاٹتے ہوئے
سامنے کھڑی
وہ ایک دم
رو پڑی
کہ جیسے
"وہ سمجھ گئی ہو”
میرے سب ارادوں کو
میرے سب دردوں کو
موج دریا بھی خاموش تھی
فضا بھی اداس تھی
سکوت تھا ہر طرف پیاس تھی
ان سب کی وجہ ایک ہی بات تھی
وہ رات جدائی کی رات تھی
میں بضد تھی اسے روکنے پر
وہ بھی اڑا رہا جانے پر
ختم کیسے ہوتی بات
اس کو پیاری اس کی انا تھی
شفق
پیٹھ پیچھے برائی کرتے ہیں
سامنے بھائی بھائی کرتے ہیں