اپنی انا کے واسطے کیا کیا نہیں کئے
اپنی انا کے واسطے کیا کیا نہیں کئے
رونا تھا جس مقام پہ ہم مسکرا دئیے
اس طرح بھی حیات بسر اپنی ہو گئی
محفل میں جا کے ہنس لیے گھر آ کے رو لئے
اپنی انا کے واسطے کیا کیا نہیں کئے
رونا تھا جس مقام پہ ہم مسکرا دئیے
اس طرح بھی حیات بسر اپنی ہو گئی
محفل میں جا کے ہنس لیے گھر آ کے رو لئے
ہم فقیروں کی صورتوں پہ نہ جا
ہم کئی روپ دھار لیتے ہیں
زندگی کے اُداس لمحوں کو
مُسکرا کر گزار لیتے ہیں
میری اجڑی ہوئی بستی کو یونہی سنسان رہنے دو
خوشیاں راس نہیں آتی مجھے پریشان رہنے دو
زینت نہیں بنتا تو نہ بن میرے دل کے آنگن کی
پر اپنے آشیانے پر میری اُڑان رہنے دو
خرد پستی میں رہنے کی عادت ڈال لو
اب تیرے ہاتھ سے حوروں کی وہ بستی گئی
تمہارا دبدبہ لوگوں یہاں صرف زندگی تک ہے
کسی کی قبر کے اندر زمینداری نہیں چلتی
آج پھر ماں مجھے مارے گی بہت رونے پر
آج پھر گاؤں میں آیا ہے کھلونے والا