سرد پتوں کے شور میں درد خزاں سنتے
جو خرد سے ہوتے تو آپ بھی
سرد پتوں کے شور میں درد خزاں سنتے
تم آ گئے ہو، تو کچھ چاندنی سی باتیں ہوں
زمیں پہ چاند کہاں روز روز اترتا ہے
ہر رات کرتے ہیں ستارے، مجھ سے بات نئی
ہوتی ہے بحث اُن سے، ہر رات نئی
آنکھ سے گرتے ہیں ہر رنگ کے موتی
ہر بار کرتا ہوں خیرات نئی
ارد گرد ہیں موجود سبہی دل ٹوٹے
بنا رہا ہوں میں اک ذات نئی
کہتے ہیں عاشقی چھوڑ چل دل توڑیں
سُنو پھر آئیں گی شکایات نئی
مجھے مقدس ہیں اپنی روایات پُرانی
تم رکھو پاس اپنی روایات نئی
میرے ہم دم مل، کہ آئے ہیں موسم سُہانے
مل کہ آئیں نئے بادل، کریں برسات نئی
چھوڑ کر تجھے جا بسوں دُور کسی بستی میں
تجھ سے تھک گیا ہوں عشق، کرنی ہے شروعات نئی
جو کی ہیں وہی بہت ہیں، نعمان آخر مرنے تک
بس کر اب اور نہ کرنا، مجھ پر عنایات نئی
نعمان اعجاز
تو کچھ بھی ہو کب تک تجھے ہم یاد کریں گے
تا حشر تو یہ دل بھی دھڑکتا نہ رہے گا
اب اپنی حقیقت بھی ساغرؔ بے ربط کہانی لگتی ہے
دنیا کی حقیقت کیا کہیے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئے
دنیا نے فسانوں کو بخشی افسردہ حقائق کی تلخی
اور ہم نے حقائق کے نقشے میں رنگ بھرا افسانوں کا
مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے
مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ