جس دنیا سے تم ڈرتی تھی، اُسے بتلائے بیٹھا ہوں

teri neendain

جس دنیا سے تم ڈرتی تھی، اُسے بتلائے بیٹھا ہوں
جو بھی تھا قصہِ محبت، سب سُنائے بیٹھا ہوں

پکڑے ہاتھ میں جام، گم ہوں اپنی ہستی میں
اور اِنھیں لے کر نامِ خدا، خدا سے ڈرائے بیٹھا ہوں

پوچھ رہے ہٰیں ،یہ کیا کیسے، یہ ہوا کیسے
کھیل کر اِنکی کم عقلی سے جادو دیکھائے بیٹھا ہوں

رت جگے تو فرض ہیں، اُن پر جنھیں عشق ہو
کمال یہ کہ تیری بھی نیندیں اُڑائے بیٹھا ہوں

میرا ربط تھا خوش حالوں سے، اور ضبط کی تھی بات کیا
اب یہ حال ہے کہ مجنوں سا خبط اپنائے بیٹھا ہوں

تصویر آئی ذھن میں جب اس جناب کی

تصویر آئی ذھن میں جب اس جناب کی
راتوں کو جاگ جاگ کے نیندیں خراب کی

ان نیم باز آنکھوں کی مستی میں مست ہوں
مجھ کو نہیں ہے کوئی ضرورت شراب کی

بے چین دل کو میرے سکوں اے کس طرح
اف وہ جمال یار، یہ عمریں شباب کی

میری محبتوں کا نہ ان پہ اثر ہوا
میں راہ دیکھتا رہا انکے جواب کی

یہ فلسفہ ہے میری محبت کا دوستوں
جس سے بھی کی خدا کی قسم بے حساب کی

دیدار حسن، جلوہ، تبسم، جمال یار
یہ سب دواییاں ہے دل اضطراب کی

قتل و فساد،خون کے چھینٹیں ہے ہر طرف
یہ کسنے میرے ہند کی حالت خراب کی

پھر سے آزاد ھویگا ہندوستان میرا
آواز اٹھ رہی ہے سنو انقلاب کی

طالب لکھا ہے میں نے جو لفظوں کی شکل میں
یہ داستان عشق ہے میری کتاب کی