ماں تیری یاد بہت آتی ہے
میں چھوٹی سی اک بچی تھی
تیری انگلی تھام کے چلتی تھی
تو دور نظر سے ہوتی تھی
میں آنسوں آنسو روتی تھی
خوابوں کا اک روشن بستا
تو روز مجھے پہناتی تھی
جب ڈرتی تھی میں رات کو
تو اپنے ساتھ سلاتی تھی
میں چھوٹی سی اک بچی تھی
تیری انگلی تھام کے چلتی تھی
تو دور نظر سے ہوتی تھی
میں آنسوں آنسو روتی تھی
خوابوں کا اک روشن بستا
تو روز مجھے پہناتی تھی
جب ڈرتی تھی میں رات کو
تو اپنے ساتھ سلاتی تھی
میرے لفظ نہیں مہتاج کسی صورت کے
میں لکھتا ہوں فقط حال سیرت کے
میں نے گوا دیے سبھی دوست اپنے
اب ساتھ محض لوگ ہیں ضرورت کے
سکون درکار نہیں، اپنا ہی ہوں دشمن
چاہیے لمحے وہی جو تھے مسرت کے
دل! نکالے گئے جس عمارت سے ہم
اُٹھائے ہوئے ہیں بوجھ اُسی عمارت کے
جو دن گزارے تھے تیرے ہجر میں
جان! وہ دن تھے میری شرارت کے
ہوئی مدت آنکھوں کو چمکے ہوئے
اب بخش دے تحائف زیارت کے
میسر رہے صرف مجھے سماعت تیری
ہم نہیں جائیں گے پیچھے شُہرت کے
مُصلت کیے نعمان، تم نے وہ فیصلے بھی
ہم جن پر رکھتے تھے حق مشاورت کے
وہ کہتے ہیں كے آگے سنائوں
میں کہہ دیتا ہوں كے پِھر کبھی
وہ کہتے ہے كے کچھ تو بتاؤں
میں کہہ دیتا ہوں كے پِھر کبھی
جب ہوتی ہے دِل میں حسرت
جب ہوتی ہے جِسَم میں قوت
پِھر ہاتھ آتا بھی ہے کاغذ
پر قلم کہہ دیتی ہے پِھر کبھی
وہ اللہ پہ یقین ہے جو اس کو جدا سا لگتا ہے
ورنہ دریا کو تو ہر شخص موسیٰ سا لگتا ہے
کوئی میرے لیے تجھ سا نہیں تھا
ستم یہ ہے تو ہی اپنا نہیں تھا
بغیر اسکے مجھے جینا پڑیگا
کبھی میں نے تو یہ سوچا نہیں تھا
میری آنکھوں کا دھوکہ تھا یقینا
کبھی بھی عشق یہ سچا نہیں تھا
یہ راستے ہر قدم تھے ساتھ میرے
میں تنہا ہو كے بھی تنہا نہیں تھا
زمانے كے لیے ھوگا وہ محسن
میرے حق میں کبھی اچھا نہیں تھا
مقدر بن گیا زمرین وہ ہی
جسے میں نے کبھی چاہا نہیں تھا
سب کچھ جانتے ہوئے بھی دِل مانتا نہیں تھا
ہَم جانے اعتبار كے کس مرحلے میں تھے