سوچتے ہیں کہ کسی اور کو مامور کریں

سوچتے ہیں کہ کسی اور کو مامور کریں
تم سے پھولوں کی حفاظت نہیں کی جاتی ہے
سوچتے ہیں کہ کسی اور کو مامور کریں
تم سے پھولوں کی حفاظت نہیں کی جاتی ہے
غربت نے چھینے سینگار کیسے کیسے
اور پھر دکھائے مجھے دار کیسے کیسے
ایک تیری خاطر میرے یار میں نے
دل پے کھائے ہیں وار کیسے کیسے
عشق اداسی کے پیغام تو لاتا رہتا ہے دن رات
لیکن ہم کو خوش رہنے کی عادت بہت زیادہ ہے
کبھی بُلا کے کبھی پاس جا کے دیکھ لیا
فسونِ سوزِ دروں آزما کے دیکھ لیا
بٹھا کے دل میں تمہیں بارہا نماز پڑھی
تمہارے گھر ہی کو کعبہ بنا کے دیکھ لیا
متاعِ زیست بنے تیرے نقشِ پا کی قسم مزید پڑھیں […]
باہر وبا کا خوف ہے، گھر میں بلا کی بھوک
کس موت سے مروں میں ذرا راۓ دیجیۓ
دکھ ہی ایسا تھا کہ محسنؔ ہوا گم سم ورنہ
غم چھپا کر اسے ہنستے ہوئے اکثر دیکھا