کبھی بُلا کے کبھی پاس جا کے دیکھ لیا
فسونِ سوزِ دروں آزما کے دیکھ لیا
بٹھا کے دل میں تمہیں بارہا نماز پڑھی
تمہارے گھر ہی کو کعبہ بنا کے دیکھ لیا
متاعِ زیست بنے تیرے نقشِ پا کی قسم
وہ اشک تو نے جنہیں مسکرا کے دیکھ لیا
ترے سوا تری اس کائنات میں کیا ہے
جلا کے دیکھ لیا دل بجھا کے دیکھ لیا
کلیمِ ہوش کو کب ، تابِ حُسنِ نظّارہ
یہ طُورِ دل ہے کہ خود کو جلا کے دیکھ لیا
بنے وہ شبنم و گل ، عندلیب و سرو و سمن
نگاہِ شوق نے آنسو بہا کے دیکھ لیا
نظر ہے شیشہ و ساغر نظر ہے مے واصفؔ
نظر کا جام نظر کو پلا کے دیکھ لیا