دیکھو تو مِرے دِل پہ یہ جو چھالا ہُؤا ہے

دیکھو تو مِرے دِل پہ یہ جو چھالا ہُؤا ہے
اِس واسطے تو پیار کو بھی ٹالا ہُؤا ہے

ہاں کر دو مِری جان اگر آیا ہے رِشتہ
اور لڑکا بھی تو دیکھا ہؤا، بھالا ہُؤا ہے

سب چھوڑ کے آئے تھے، مگر (آج کراچیؔ)
ہم بِچھڑے ہُوؤں کے لِیےانبالہؔ ہُؤا ہے

میں کب کا بِکھر جاتا غمِ دہر کے ہاتھوں
بس گِرد مِرے غم کا تِرے جالا ہُؤا ہے

ہوتا ہُوں اکیلا تو مُجھے آ کے سنبھالے
اِک درد کہ بے درد سا جو پالا ہُؤا ہے

دکھ درد کِسی اور کا، بے چین مِرا دِل
یُوں درد کے سانچے میں اِسے ڈھالا ہؤا ہے

کیا بات کرؤں کیا مِری اوقات رفِیقو
جُنبِش کے لِیئے لب پہ مِرے تالا ہُُؤا ہے

کیا لاج رہی تیری اگر آج بہم ہیں
اے پیار کے دُشمن تِرا مُنہ کالا ہُؤا ہے

آنکھوں پہ کہوں شعر یا میں گھر کو سنبھالوں
حسرتؔ نے پرکھشا میں مُجھے ڈالا ہؤا ہے

رشید حسرتؔ

گُلاب اپنے لیئے

میں ہُوں ذرّہ تُو اگر آفتاب اپنے لیئے
تیرے سپنے ہیں، مِرے ٹُوٹے سے خواب اپنے لیئے

میں نے سوچا ہے کِسی روز چمن کو جا کر
چُن کے لاؤں گا کوئی تازہ گُلاب اپنے لیئے

جِن کی تعبِیر نہِیں خواب وہ دیکھے میں نے
شب گُزشتہ ہی تو سُلگائے وہ خواب اپنے لیئے

تِیس پاروں کے تقدُّس کی قسم کھاتا ہوں
نُور کا دھارا ہے یہ پاکِیزہ کتاب اپنے لیئے

وقت کی دُھوپ کو چھاؤں میں بدل لیتے ہیں
میں ہوں خیمہ تو مِرے دوست تناب اپنے لیئے

کیوں بھلا کچّے گھڑوں پہ بھی بھروسہ رکھیں مزید پڑھیں […]