شام بھی ہو جائے گی یہ، دِل نشِیں آئے گا وہ

شام بھی ہو جائے گی یہ، دِل نشِیں آئے گا وہ
آرزُوئیں ہو رہی ہیں جاگزِیں آئے گا وہ
پہلے بھی وعدوں سے اپنے کب کِیا ہے اِنحراف
اب وچن جو دے دیا تو بِالیقیں آئے گا وہ
شام بھی ہو جائے گی یہ، دِل نشِیں آئے گا وہ
آرزُوئیں ہو رہی ہیں جاگزِیں آئے گا وہ
پہلے بھی وعدوں سے اپنے کب کِیا ہے اِنحراف
اب وچن جو دے دیا تو بِالیقیں آئے گا وہ
جواب ہم نہیں سنتے ، بتا یہ اے قاصد
ہوا قبول ہمارا سلام بھی کہ نہیں
بِچھڑ کے تُجھ سے اے صنم جو شاد ھو سکے نہِیں
ھزار شُکر تیری آنکھ کے دیّےبُجھے نہِیں
انا کی دوڑ میں سدا کو پیش پیش ھم رہے
یہ اپنے ہاتھ کا لِکھا، گِلہ نصیب سے نہِیں
کِسی کے ہجر میں مُجھے اِک ایسا مُعجزہ ھُؤا
خزاں میں رکھ رہے تھے جو اب ایسے سِلسِلے نہِیں
لکھے ہیں لفظ جو فقط اُسی کے نام کے لِکھے
اُسی کے نام کے ہیں حرف جو ابھی لِکھے نہِیں
جہاں پہ چھوڑ کر گیا تھا تُو وہِیں کھڑے رہے
ھزار آندھیاں چلِیں مگر قدم ہٹے نہِیں
کِتابِ وقت کے ورق رشِیدؔ اُلٹ کے دیکھ لے
یہ ضبط کا ھے اِمتحاں اگرچِہ حوصلے نہیں۔
رشِید حسرتؔ۔
گو پر تو نہیں پھر بھی آزاد نہیں کرنا
نا شاد رکھو مجھ کو تم شاد نہیں کرنا
قد کاٹھ اگر دو گے، سمجُھوں گا تمہیں بونا
بونا ہی رکھو مجھ کو شمشاد نہیں کرنا
تم عام سی لڑکی ہو، میں عام سا لڑکا ہوں مزید پڑھیں […]
جو لوگ سمندر میں بھی رہ کر رہے پیاسے
اک ابر کا ٹکڑا انہیں کیا دے گا دلاسے
مانا کہ ضروری ہے نگہبانی خودی کی
بڑھ جائے نہ انسان مگر اپنی قبا سے
برسوں کی مسافت میں وہ طے ہو نہیں سکتے
جو فاصلے ہوتے ہیں نگاہوں میں ذرا سے
تو خون کا طالب تھا تری پیاس بجھی ہے؟ مزید پڑھیں […]
اگرچہ دُشوار تھا مگر زیر کر لِیا تھا
انا کا رستہ سہل سمجھ کر جو سر لِیا تھا
وُہ کہکشاؤں کی حد سے آگے کہیں بسا ھے
طلب میں جِس کی زمِیں پہ بوسِیدہ گھر لِیا تھا
گُلوں کی چاہت میں ایک دِن کیا بِچھایا ھوگا
کہ ھم نے کانٹوں سے اپنا دامان بھر لِیا تھا
بڑھایا اُس نے جو گرم جوشی سے ھاتھ یارو مزید پڑھیں […]
سُکوں وہ لے گیا تھا ساتھ، اب آرام کھو بیٹھے
یہ کِس سے پڑ گیا پالا کہ دِل سے ہاتھ دھو بیٹھے
پریشاں ڈُھونڈتے پِھرتے ہیں بچّے بُوڑھے بابا کو
اُدھر وقتوں کے قِصّوں میں ہیں گُم سُم یار دو بیٹھے
بڑوں کے فیصلوں کو ٹال کر کرتے تھے من مانی
ابھی ہم رو رہے ہیں دوستو تقدِیر کو بیٹھے
"نشِستیں تو نہیں ہوتی ہیں بزمِ یار میں مخصُوص”
کہاں اُٹھتے ہیں قُربِ یار میں اِک بار جو بیٹھے
رِہائی زلف سے محبوب کی ہم نے تو پالی تھی
نہیں تھی اُٹھ کے جانے کی ذرا بھی تاب، سو بیٹھے
کِسی نے لوٹ آنے میں ذرا سی دیر کر ڈالی
پلٹ آیا ہے وہ، ہم جس گھڑی اوروں کے ہو بیٹھے
ابھی تک یاد آتا ہے بِچھڑنے کا کوئی منظر
بہت چاہا کریں ہم ضبط، پر آنکھیں بِھگو بیٹھے
کھڑے ہم ایک مُدّت دل کے زخموں کے مداوے کو
اُٹھا ارمان کا اِک نا روا طُوفان تو بیٹھے
رشید حسرتؔ جہاں تک زِندگی ہے، آرزُوئیں ہیں
یہاں ہم اُٹھ گئے اے دوستو ارمان وہ بیٹھے
رشید حسرتؔ