خامشی اچھی نہیں انکار ہونا چاہئے

خامشی اچھی نہیں انکار ہونا چاہئے
یہ تماشا اب سر بازار ہونا چاہئے
اب جو لہر ہے پل بھر بعد نہیں ہوگی یعنی
اک دریا میں دوسری بار اترا نہیں جا سکتا
وُہ مِرا دوست مِرے حال سے آگاہ تو ہو
نا سہی سچ میں مگر خواب میں ہمراہ تو ہو
کُچھ اثر اُن پہ مِری آہ و فُغاں کا یارو
ہو نہ ہو، پِھر بھی مِرے لب پہ کوئی آہ تو ہو
ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی
اور وہ سمجھے نہیں یہ خامشی کیا چیز ہے
مجھے اک بات کہنے دو، مجھے تم سے محبت ہے
ہمیشہ ساتھ رہنے دو، مجھے تم سے محبت ہے
سنو
عداوتوں سے کنارہ کر لو
خوشی کو اپنا سہارا کر لو
جہاں ملے تھے ہَم دونوں
جہاں خواب بوئے تھے
جہاں سے حد گزرتی تھے
میرے تمھارے محبت کی
اسی مقام سے ایک بار پھر
وہی سفر دوبارہ کرلو
سنو
محبت کا اشارہ کر لو