حسن کی توپ کا گولہ مارا ترا ککھ نہ رہے

حسن کی توپ کا گولہ مارا ترا ککھ نہ رہے
تجہ پہ گر جائے قطبی تارا، تیرا ککھ نہ رہے
بنکنگ کونسل والے تیری ہر شے قرقی کردیں
چڑھ جائے تجھ پر قرضہ بھارا تیرا ککھ نہ رہے
مزید پڑھیں […]
حسن کی توپ کا گولہ مارا ترا ککھ نہ رہے
تجہ پہ گر جائے قطبی تارا، تیرا ککھ نہ رہے
بنکنگ کونسل والے تیری ہر شے قرقی کردیں
چڑھ جائے تجھ پر قرضہ بھارا تیرا ککھ نہ رہے
مزید پڑھیں […]
میر ان نیم باز آنكھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
دیکھ تو دِل كے جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
تمہارے پھپھا وہ گنجے والے جو لے گئے ادھار کنگھی
مہینہ ہونے کو آگیا نہ اس نے دتی نہ ہم نے منگی
وہ واپڈا نے جو موٹا بلب لگا دیا ہے تمہارے در پر
تو اس کے چانن میں تجھ سے ملنے میں آرہی ہے شدید تنگی
سکون دیتی ہے دِل کو کبھی کبھی کی دعا
کبھی کبھی کی دعا میں ہے تازگی کی دعا
بہت دعائیں بے دیتی ہے بے حسی دل کو
بہت دعائیں بھی ہوتی ہیں بے دلی کی دعا
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستا دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانا کیا
عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا
حسن خود محو تماشا ہوگا
سن کے آوازۂ زنجیر صبا
قفس غنچہ کا در وا ہوگا
جب دہر کے غم سے اماں نہ ملی، ہم لوگوں نے عشق ایجاد کیا
کبھی شہر بتاں میں خراب پھرے، کبھی دشتِ جنوں آباد کیا
کبھی بستیاں بن، کبھی کوہ و دمن، رہا کتنے دنوں یہی جی کا چلن
جہاں حسن ملا وہاں بیٹھ رہے، جہاں پیار ملا وہاں صاد کیا
یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم
لیکن یہ کیا کہ شہر ترا چھوڑ جائیں ہم
مدت ہوئی ہے کوئے بتاں کی طرف گئے
آوارگی سے دل کو کہاں تک بچائیں ہم