نظر فریب قضا کھا گئی تو کیا ہوگا

نظر فریب قضا کھا گئی تو کیا ہوگا
حیات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہوگا
بزعم ہوش تجلی کی جستجو بے سود
جنوں کی زد پہ خرد آ گئی تو کیا ہوگا
نظر فریب قضا کھا گئی تو کیا ہوگا
حیات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہوگا
بزعم ہوش تجلی کی جستجو بے سود
جنوں کی زد پہ خرد آ گئی تو کیا ہوگا
میں کیسے سرد ہاتھوں سے تمھارے گال چھوتا تھا
دسمبر میں تمھیں میری شرارت یاد آئے گی
چارہ گر ، آج ستاروں کی قسم کھا کے بتا
کس نے انساں کو تبسم کے لیے ترسایا
دسمبر کی سرد اُداس کالی راتوں میں
تیرے ہجر کے ناگ بہت ڈسا کرتے ہیں
مضطرب رکھتا ہے میرا دلِ بے تاب مجھے
عینِ ہستی ہے تڑپ صورتِ سیماب مجھے
موج ہے نام مرا، بحر ہے پایاب مجھے
ہو نہ زنجیر کبھی حلقۂ گِرداب مجھے
ہمیں تو کب سے پتہ ہے کے تو بے وفا ہے محسن
تجھے چاہا اِس لیے شاید تیری فطرت بَدَل جائے
یہ بارش یہ سرد ہوا یہ ہجر کا عالم
گماں ہوتا ہے اِس بار دسمبر مار ہی ڈالے گا