یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
کس حسیں، خاموش گلشن میں کھلا ہے میری چاہت کا دمکتی پنکھڑیوں والا گلاب
کون سے جادو بھرے کوچے میں بہتی ہے ان آنکھوں کی خمار آگیں شراب
کب فیصلِ شب كے اک پوشیدہ دروازے سے جھا نکے گا وہ چمکیلا سَراب
بول اے بادِ شبانہ كے نرالے نقش دکھلاتے ہوئے گونگے رُباب
کب سے اپنی تلاش میں گم ہوں
اے خدا مجھ کو مجھ پہ افشا کر
کون بانٹے گا دکھ تیرے ناصر
دوستوں سے بھی چُھپ كہ رویا کر
ٹھٹھرتی ہوئی شب سیاح اور وہ بھی طویل تر
محسن ہجر كے ماروں پر قیامت ہے دسمبر
ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اِس سے کیا
بوجتی رہے ہواؤں سے دَر مگر تم کو اِس سے کیا
تم موج موج مثلِ صبا گھومتے رہو
کٹ جائیں میری سوچ كے پر ، تم کو اِس سے کیا
تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے
تنہا کٹے کسی کا سفر ، تم کو اِس سے کیا
ہے آپ کے ہونٹوں پہ جو مسکان وغیرہ
قربان گئے اس پہ دل و جان وغیرہ
بلی تو یوں ہی مفت میں بدنام ہوئی ہے
تھیلے میں تو کچھ اور تھا سامان وغیرہ
کیوں ہر بات پہ کوستے ہیں لوگ دسمبر کو
کیا دسمبر نے کہا تھا محبت کر لو
وہ کوئی اور نہ تھا چند خشک پتے تھے
شجر سے ٹوٹ کے جو فصل گل پہ روئے تھے
ابھی ابھی تمہیں سوچا تو کچھ نہ یاد آیا
ابھی ابھی تو ہم اک دوسرے سے بچھڑے تھے