توڑ گیا وہ ہَم سے ہر تعلق فقط اتنا کہہ کر دوست
توڑ گیا وہ ہَم سے ہر تعلق فقط اتنا کہہ کر دوست
کہہ اجڑے ہوئے لوگوں میں ہَم بسا نہیں کرتے
توڑ گیا وہ ہَم سے ہر تعلق فقط اتنا کہہ کر دوست
کہہ اجڑے ہوئے لوگوں میں ہَم بسا نہیں کرتے
اندھیروں کو نور دیتا ہے ، ذکر اس کا دِل کو سرور دیتا ہے
اس كے دَر سے جو بھی مانگو ، وہ اللہ ہے ضرور دیتا ہیں
تو ابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر
نظر ملا کے بھول گئے ہو
اپنا بنا کے بھول گئے ہو
میری بےبسی بھی تو دیکھو
گھر جلا کے بھول گئے ہو
رات پِھر رنگ پہ تھی اُس كے بدن کی خوشبو
دِل کی دھڑکن تھی كے اڑتے تھے لہو میں جگنو
جیسے ہر شہ ہو کسی خوابِ فراموش میں گم
چند چمکا نا کسی یاد نے بدلا پہلو
یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں
اب دو تو جام خالی ہی دو، میں نشے میں ہوں
ایک ایک فرطِ دور میں، یونہی مجھے بھی دو
جامِ شراب پر نہ کرو، میں نشے میں ہوں