زندگی تجھ سے امید وفا کیا رکھوں
زندگی تجھ سے امید وفا کیا رکھوں
جب مجھے چھوڑ گئے دوست پُرانے میرے
نکال دو سینے سے کمبخت ہے یہ دِل
محبت ، محبت ، محبت لگا رکھی ہے
بے وفا کہنے سے کیا وہ بے وفا ہو جائے گا
تیرے ہوتے اس صفت کا دوسرا ہو جائے گا
شرط کر لو پھر مجھے برباد ہونا بھی قبول
خاک میں مل کر تو حاصل مدعا ہو جائے گا
ہر اک جذبات کو زُبان نہیں ملتی
ہر اک آرزو کو دعا نہیں ملتی
مسکراہٹ بنائے رکھو تو دُنیا ہے ساتھ
آنسوؤں کو تو آنکھوں میں بھی پناہ نہیں ملتی
کمرے کا کیلنڈر تو بَدَل جاتا ہے ہر سال
اب كے میرے حالت بَدَل دے میرے مولا
جناب دم کی عجب نفسیات ہوتی ہے
کہ اس کی جنبش ادنیٰ میں بات ہوتی ہے
وفا کے جذبے کا اظہار دم ہلانا ہے
جو دم کھڑی ہے وہ نفرت کا تازیانہ ہے
اس كے بغیر آج بہت جی اُداس ہے
جالب چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہَم