دشتے تنہائی میں جسے چھوڑ آئے تم
دشتِ تنہائی میں جسے چھوڑ آئے تم
سرابوں سے پُوچھتا ہے یہ پیار کیسا ہے
دشتِ تنہائی میں جسے چھوڑ آئے تم
سرابوں سے پُوچھتا ہے یہ پیار کیسا ہے
ہوتی ہے ٹیچروں سے پٹائی کبھی کبھی
آتے ہیں دن کو تارے دکھائی کبھی کبھی
ہر روز عید نیست كے حلوہ خورد کسے
ملتی ہے دیکھنے کو کڑاہی کبھی کبھی
بارش کی یہ پہلی بوندیں
کیسا جادو کرتی ہیں
دِل سے خون کے قطرے لے کر
میری آنکھیں بھرتی ہیں
بارش کے اِس دریچے سے
کتنے منظر کھلتے ہیں
خواب سا علم ، لہجہ مدھم
آنکھیں نم نم ، بھیگا موسم
پہلی بارش ، پہلی خواہش
وہ یاد بھی اب کے آیا ہے ، اور جاگ اٹھی ہے خواہش بھی
تازہ درد ، سرد ہوا اور سال کی پہلی بارش بھی
گھر بنا کر میرے دِل میں وہ چھوڑ گیا
نہ خود رہتا ہے نہ کسی اور کو بسنے دیتا ہے
وہ کہتی ہے، چلو فرحت، ہوا کے ساتھ چلتے ہیں
میں خاموشی سے اُس کے ساتھ چل دیتا ہوں بُجھنے کو
وہ مُجھ سے پوچھتی ہے، تم کہاں غائب ہو صدیوں سے
میں کہتا ہوں، ہزاروں وسوسوں کے درمیاں گُم ہوں
سچ ہی کھا تھی کسی نے تنہا جینا سیکھ
محبت جتنی بھی سچی ہو ساتھ چھوڑ جاتی ہے
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سیکڑوں کارواں اور بھی ہیں