گر کبھی رونا ہی پڑ جائے تو اتنا رونا

گر کبھی رونا ہی پڑ جائے تو اتنا رونا
آ کے برسات ترے سامنے توبہ کر لے
گر کبھی رونا ہی پڑ جائے تو اتنا رونا
آ کے برسات ترے سامنے توبہ کر لے
وفا کی کون سی منزل پہ اس نے چھوڑا تھا
کہ وہ تو یاد ہمیں بھول کر بھی آتا ہے
یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے
کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے
عوام بُھوک سے دیکھو نِڈھال ہے کہ نہِیں؟
ہر ایک چہرے سے ظاہِر ملال ہے کہ نہِیں؟
تمام چِیزوں کی قِیمت بڑھائی جاتی رہی
غرِیب مارنے کی اِس میں چال ہے کہ نہِیں؟
جس نے اس دور کے انسان کیے ہیں پیدا
وہی میرا بھی خدا ہو مجھے منظور نہیں
کوئی خاموش ہو جائے تو ہم تڑپ جاتے ہیں فراز
ہم خاموش ہوئے تو کسی نے حال تک نہ پوچھا
باتوں میں لگائے ہی مجھے رکھتا ہے ظالم
وعدے وہی جھوٹے ہیں وہی شام و سحر روز