اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
ان كے دیکھے سے جو آتی ہے منه پر رونق
وہ سمجھتے ہیں كے بیمار کا حال اچھا ہے
ہو گیا جس دن سے اپنے دِل پر اس کو اختیار
اختیار اپنا گیا بے اختیاری رہ گئی
فقط اِس شوق میں پوچھی ہے ہزاروں باتیں
میں ترا حسن تیرے حسنِ بیاں تک دیکھوں
نظر جو مجھ سے ملا کر گیا ہے
میرے ہوش وہ اڑا کر گیا ہے
اس كے سوا کچھ یاد نہیں
ہر نقش ذہن سے مٹا کر گیا ہے
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نو امیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
عجب تضاد میں کاٹا ہے زندگی کا سفر
لبوں پہ پیاس تھی بادل تھے سر پہ چھائے ہوئے