خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لیے
خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لیے
ان میں جا کر مگر رہا نہ کرو
میری بے بسی ، میری التجا میری ضبط آہ پہ نظر تو کر
مجھے مسکرا کے نا ٹال دے میری زندگی کا سوال ہے
وقت ہے جھونکا ہوا کا ، اور ہَم ہیں فقط پیلے پتے
کون جانے اگلے دسمبر ، تم کہاں اور ہَم کہاں
اُداسی ، شام ، تنہائی ، کسک اور یادوں کے بے چینی
مجھے سب سونپ کر سورج اُتَر جاتا ہے پانی میں
مجھے غرور رہتا ہے تیری آشنائی کا
مگر ساتھ غم بھی ہے تیری جدائی کا
بھیڑ میں اکیلے پن کا احساس ہوتا ہے
تیرے بن یہ حال ہے میری تنہائی کا
کہتے تو ہو یوں کہتے یوں کہتے جو وہ آتا
یہ کہنے کی باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا