تیرے قول و قرار سے پہلے
تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے
وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لئے
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لئے
محسن میں بات بات پہ کہتا تھا جس کو جان
وہ شخص آج مجھ کو بے جان کر گیا
اپنی تباہیوں کا مجھے کوئی غم نہیں
تم نے کسی کے ساتھ محبت نبھا تو دی
وہ رات کا بےنوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تیری گلی تک تو ہَم نے دیکھا پِھر نہ جانے کدھر گیا وہ
یہ نظر منتظر ہے تیری آج بھی
دِل کسی اور سے آشنا ہی نہیں
میں کیوں رستہ دوں کسی اور کو
جب کوئی تیرے جیسا بنا ہی نہیں