کمال عشق ہے دیوانہ ہو گیا ہوں میں

کمال عشق ہے دیوانہ ہو گیا ہوں میں
یہ کس کے ہاتھ سے دامن چھڑا رہا ہوں میں
کمال عشق ہے دیوانہ ہو گیا ہوں میں
یہ کس کے ہاتھ سے دامن چھڑا رہا ہوں میں
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
اس نا خدا کے ظلم و ستم ہائے کیا کروں
کشتی مری ڈبوئی ہے ساحل کے آس پاس
اک عمر کٹ گئی ہے ترے انتظار میں
ایسے بھی ہیں کہ کٹ نہ سکی جن سے ایک رات
بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے
تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
خوداریوں كے خون کو ارزاں نہ کر سکے
ہَم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے
کس درجہ دِل شکن تھے محبت كے حادثے
ہَم زندگی میں پِھر کوئی اَرْماں نہ کر سکے
مصروفیت میں آتی ہے بے حد تمہاری یاد
فرصت میں تیری یاد سے فرصت نہیں ملتی