میں تکیے پر ستارے بو رہا ہوں

میں تکیے پر ستارے بو رہا ہوں
جنم دن ہے اکیلا رو رہا ہوں
اپنے ہی سامنے دیوار بنا بیٹھا ہوں
ہے یہ انجام اسے رستے سے ہٹا دینے کا
جان کی بھیک مانگنے کی لیے بھی
کبھی ہاتھ ہَم نے پھیلایا ہی نہیں
انجم مجھ کو میرے واعظ نے
سسک کر جینا سکھایا ہی نہیں
خواہشیں ہیں گھر سے باہر دور جانے کی بہت
شوق لیکن دل میں واپس لوٹ کر آنے کا تھا
کاش اس کے رو بہ رو نہ کریں مجھ کو حشر میں
کتنے مرے سوال ہیں جن کا نہیں جواب
جس خواب میں ہو جائے دیدار نبی ﷺ حاصل
اے عشق کبھی ہَم کو بھی وہ نیند سلا دے
آج بھی اس کی آنكھوں میں راز وہی تھا
چہرہ وہی تھا چہرہ کا لباس وہی تھا
کیسے اس کو بے وفا کہہ دوں یارو
آج بھی اس كے دیکھنے کا انداز وہی تھا